نہ باہر ہی لگے ہے دل نہ گھر جانے کو جی چاہے
نہ باہر ہی لگے ہے دل نہ گھر جانے کو جی چاہے
نادم اشرفی برہانپوری
MORE BYنادم اشرفی برہانپوری
نہ باہر ہی لگے ہے دل نہ گھر جانے کو جی چاہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کدھر جانے کو جی چاہے
بڑی ہنگامہ پرور ہیں مری تنہائیاں یوں تو
کسی کی انجمن میں بھی مگر جانے کو جی چاہے
صلیب و دار کی راہیں یہ بستی اور یہ ویرانے
بتا ذوق جنوں تیرا کدھر جانے کو جی چاہے
ملانا مسکرا کر اپنی نظریں ان کی نظروں سے
جب اے شیرازۂ ہستی بکھر جانے کو جی چاہے
بھٹکتا پھر رہا ہوں در بدر دن کے اجالوں میں
اندھیرے شام کے بکھریں تو گھر جانے کو جی چاہے
پئے تفریح جانے کس طرف وہ رخ کریں اپنا
اجالوں کی طرح ہر سو بکھر جانے کو جی چاہے
یہ دنیا جبکہ رنج و درد سے معمور ہے نادمؔ
مگر پھر بھی یہاں اپنا ٹھہر جانے کو جی چاہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.