نہ دم باقی ہے آنکھوں میں نہ دل میں جان باقی ہے
نہ دم باقی ہے آنکھوں میں نہ دل میں جان باقی ہے
مگر دونوں میں تیری دید کا ارمان باقی ہے
ہوئی حاصل سبکدوشی نہ قاتل سر کٹانے سے
کہ گردن پر مری شمشیر کا احسان باقی ہے
نہ رک جانا اڑا کر دھجیاں میرے گریباں کی
ابھی دست جنوں اس شوخ کا دامان باقی ہے
دھواں بھی قبر سے اٹھا تو بل کھاتا ہوا اٹھا
تری خم دار زلفوں کا جو اب تک دھیان باقی ہے
تمہارے روئے روشن سے ہے بزم حسن کی رونق
مرے دم سے جہاں میں عاشقی کی شان باقی ہے
دم مردن وہ آیا بھی تو آیا ساتھ غیروں کے
ستم گر کے کرم میں بھی ستم کی شان باقی ہے
پئے تسبیح پر گن گن کے ساغر آج واعظ نے
بوقت مے کشی بھی زہد کی اک شان باقی ہے
جو کاٹا تو نے میرا سر گرا تیرے ہی قدموں پر
ترے شیدا میں مر کر بھی وفا کی شان باقی ہے
تمنا آرزو ارمان سب تو ہو چکے رخصت
دل ویراں میں بس اک یاس اب مہمان باقی ہے
میرا سر کاٹ کر بولا وہ بسمل دیکھ کر مجھ کو
تڑپتے کیوں ہو کیا کچھ اور بھی ارمان باقی ہے
اگی نرگس جو تربت پر تو کس شوخی سے وہ بولے
ابھی تک گھورنے کا آپ کو ارمان باقی ہے
عبث تم روندتے ہو میری تربت خاک ہونے پر
اب اس میں استخواں تک بھی نہیں اے جان باقی ہے
فلک پر روح گر پہونچی تو تن زیر زمیں پہونچا
تلاش یار کا اب کون سا عنوان باقی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.