نہ دشت میں نہ چمن میں نہ گھر میں رکھا تھا
نہ دشت میں نہ چمن میں نہ گھر میں رکھا تھا
مرا سکون تری رہ گزر میں رکھا تھا
وہ تیری یاد تھی کیا تھا جو ایک نشتر سا
تمام عمر جو میرے جگر میں رکھا تھا
گیا وہ دور جنوں دل پہ جس کا قبضہ تھا
نکل چکا ہے وہ سودا جو سر میں رکھا تھا
وفا کے نام پہ ہم نے فریب کھایا ہے
خذف چھپا کے کسی نے گہر میں رکھا تھا
بجھا دیا ہے زمانے کی آندھیوں نے اسے
جو اک چراغ تری رہ گزر میں رکھا تھا
بچا کے سب کی نظر سے نظر میں رکھا تھا
تمہیں کو دل میں تمہیں کو جگر میں رکھا تھا
نگاہ علم کھلی دل کی آنکھ بند ہوئی
اندھیرا بے خبری کا خبر میں رکھا تھا
بجھی وہ شمع محبت جو دل کی رونق تھی
نکل گیا وہ اثاثہ جو گھر میں رکھا تھا
زمانہ ہو گیا کس طرح باخبر اس سے
جو راز میں نے دل معتبر میں رکھا تھا
تمہارے آتے ہی لو آج وہ بھی ختم ہوا
جو فاصلہ مری شام و سحر میں رکھا تھا
مرے قلم نے یہ رضوانؔ چراغ شعر و سخن
جلا کے محفل علم و ہنر میں رکھا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.