نہ دور جانے نہ پاس آنے سے کیا ملے گا
نہ دور جانے نہ پاس آنے سے کیا ملے گا
مریض الفت کو آزمانے سے کیا ملے گا
وہ سرخ دھاگہ تھا منتوں کا جسے ہے توڑا
ابھی ہزاروں دیے جلانے سے کیا ملے گا
اب اس سے بڑھ کر تو کچھ نہیں ہے کہ جاں سے جائیں
نگہ ستم گر ہمیں ستانے سے کیا ملے گا
یوں بے ارادہ ہی بوجھ دل سے اتارا ورنہ
یہ شعر لکھ کر تجھے سنانے سے کیا ملے گا
تمہارے آئے بنا اداسی نہ جائے دل سے
تمہاری تصویر کو لگانے سے کیا ملے گا
زیاں کا احساس حد سے بے حد ہی ہوگا میرا
مجھے تمہارے یوں شہر جانے سے کیا ملے گا
اگر سنے تو اڑان بھر کر مرے گی تتلی
جو تم پہ لکھا وہ گیت گانے سے کیا ملے گا
تری سماعت ہے سر کی عادی نہ سن سکے گی
جو دل پہ گزرے تجھے بتانے سے کیا ملے گا
مزا تو تب ہے کہ دل کی دنیا میں دل بسا ہو
یوں چند لمحے بدن ملانے سے کیا ملے گا
تمہاری خوشبو اگر نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے
گلاب چمپا سے گھر سجانے سے کیا ملے گا
تجھے سوالی کی جھولی بھرنا کبھی نہ آیا
تمہارے در کو یوں کھٹکھٹانے سے کیا ملے گا
ہمیں نہ موڑو ہمارے کاسے میں دید ڈالو
فقیر لوگوں کا دل دکھانے سے کیا ملے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.