نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
دلچسپ معلومات
( بال جبریل)
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیاد کی زد میں
مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی
الٹ جائیں گی تدبیریں بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے نہیں میرے تخیل کی ہے خلاقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.