نہ ہوتے اہل دل اہل ستم جانے کہاں جاتے
نہ ہوتے اہل دل اہل ستم جانے کہاں جاتے
یہ برق انداز جلوے آگ برسانے کہاں جاتے
سبھی زاہد صفت ہوتے تو میخانے کہاں جاتے
شباب و کیف و سرمستی کے افسانے کہاں جاتے
وہ یوں کہئے کہ ٹھوکر کھا کے آتا ہے سنبھل جانا
وگرنہ تم سے ظالم ہم سے پہچانے کہاں جاتے
جنوں گر انقلاب دہر کی راہوں پہ چل پڑتا
جناب خضر کیا کرتے یہ فرزانے کہاں جاتے
مجسم برف ہوں جذبات جن کے ان سے کیا حاصل
ہم ایسی بے حسی میں خون گرمانے کہاں جاتے
مرے ہی دم سے ہیں منظورؔ ان کی جلوہ گاہیں بھی
وگرنہ حشر ساماں ناز فرمانے کہاں جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.