نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا
نہ ہوا پر نہ ہوا وہ بت خود سر اپنا
تجھ سے انصاف ہے اے داور محشر اپنا
بے قراری نے لگایا ہے ٹھکانے مجھ کو
پہلوے مہر قیامت میں ہے بستر اپنا
کیا کھلے پھرتے ہو تم قاتل عالم ہو کر
کیوں دکھاتے ہو تماشہ سر محشر اپنا
ہم نشیں محو تصور ہوں اٹھاؤں کیوں کر
دے گیا ہے کسی زانو کے تلے سر اپنا
مل گیا ایک نہ ملنے سے ترے کنج لحد
بن گیا ایک بگڑنے سے ترے گھر اپنا
مجھ سے کیا پوچھتے ہو دونوں جہاں پھونک بھی دو
جلنے والے بھی ہیں اپنے رخ انور اپنا
دل میں کیا سوچتے ہو تم جسے چاہو دیکھو
آنکھ اپنی ہے نظر اپنی ہے منظر اپنا
اس کی ترکیب خرابی سے ہے اللہ اللہ
وہ بگڑتے ہیں تو بنتا ہے مقدر اپنا
ہائے وہ رنگ محبت کہ تبسم بن کر
کسی آلودہ لب یار میں تھا گھر اپنا
کچھ خبر ہے تمہیں برگشتگی مژگاں کی
وہ نزاکت سے سنبھلتا نہیں نشتر اپنا
چاہئے آئینۂ دل پہ فنا کی صیقل
مٹتے ہی مٹتے چمک جائے گا جوہر اپنا
تیرہ بختی نے وفا خوب چھپا رکھا تھا
کھل گیا جلسۂ احباب پہ جوہر اپنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.