نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں
نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں
ذرا سی بات تھی اور برچھیاں نکل آئیں
ہوا یے ہم پہ اندھیروں کی سازشوں کا اثر
ہمارے ذہن میں بھی کھڑکیاں نکل آئیں
مجھے نواز دی مولیٰ نے پھول سی بیٹی
مرے حساب میں کچھ نیکیاں نکل آئیں
وہ پیڑ جس پہ قضا بن کے بجلیاں ٹوٹیں
سنا ہے اوس پہ ہری پتیاں نکل آئیں
بدلتی رت میں یے کم ظرفیوں کا عالم ہے
بلوں سے پنکھ لیے چیونٹیاں نکل آئیں
خدا کے واسطے اب تو سفر تمام کرو
کہ اب قفس سے بھی تو انگلیاں نکل آئیں
یے معجزہ ہی تو ہے اے نفسؔ کہ طوفاں میں
سمندروں سے سبھی کشتیاں نکل آئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.