نہ جانے کب سے میں گرد سفر کی قید میں تھا
نہ جانے کب سے میں گرد سفر کی قید میں تھا
کہ سنگ میل تھا اور رہگزر کی قید میں تھا
دکھائی دیتا تھا مختار دست و بازو سے
مگر وہ شخص کسی بے ہنر کی قید میں تھا
میں خواب خواب تھا ہر جشن آرزو کا اسیر
کھلی جو آنکھ تو اپنے ہی گھر کی قید میں تھا
کھلی فضائیں ملیں جب تو اے ہوائے چمن
میں بے بضاعتیٔ بال و پر کی قید میں تھا
میں خوش ہوں یوں کہ ابھی تک تری نظر میں نہیں
وہ اشک خوں جو مری چشم تر کی قید میں تھا
نہ کر سکا کسی منزل کا احترام کہ میں
جنون شوق کا مارا سفر کی قید میں تھا
میں اڑ رہا تھا فضاؤں کی وسعتوں میں مگر
مرا وجود ابھی بام و در کی قید میں تھا
کیا تھا رات تصور میں جس نے قصد فرار
وہ صبح پا بہ گرفتہ سحر کی قید میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.