نہ جانے کیا وہ درختوں سے بات کرتے رہے
نہ جانے کیا وہ درختوں سے بات کرتے رہے
کہ ڈالیوں کی لچک سے پرند ڈرتے رہے
نقوش ابھرے جو تاریکیوں کے دامن پر
خیال و خواب میں آ آ کے وہ بکھرتے رہے
تمام عمر نچوڑا کئے رگوں کا لہو
کہ ہم امیدوں کے خاکوں میں رنگ بھرتے رہے
گلوں کی طرح رہے آندھیوں کے نرغے میں
تمام زندگی ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
عجیب دن تھا کہ شعلے فلک اگلتا رہا
لہولہان پرندے اڑان بھرتے رہے
ہمیں تو کافی تھا شبنم کا ایک قطرہ بھی
زمانے والے پیالے لہو کے بھرتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.