نہ جانے ٹوٹ کے کب سے بکھر رہا ہوں میں
نہ جانے ٹوٹ کے کب سے بکھر رہا ہوں میں
کہ اپنی ذات کا خود ایک سانحہ ہوں میں
مرے لہو کی ضرورت ہے تیرے ہاتھوں کو
اسی تصور رنگیں سے جی رہا ہوں میں
مصیبتیں تو ہیں اپنی شمار سے باہر
کہ حادثات میں ہر لحظہ مبتلا ہوں میں
نہ جانے کیسا سفر ہے کہ کچھ پتہ ہی نہیں
چلا کہاں سے کہاں آ کے رک گیا ہوں میں
نہ یاد آئے کوئی اور نہ دے کوئی آواز
نکل کے یادوں کی بستی سے آ گیا ہوں میں
انا کو توڑ کے آ جاؤں تیرے پاس مگر
ترا ارادہ نہ اب تک سمجھ سکا ہوں میں
پھر آج سہمے ہوئے لمحے یاد آنے لگے
حصار درد میں خورشیدؔ گھر گیا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.