نہ خاک خشک کے ٹھہرے نہ شاخ تر کے رہے
نہ خاک خشک کے ٹھہرے نہ شاخ تر کے رہے
ہم اپنے گھر سے اٹھے کیا کہ دربدر کے رہے
ہماری فکر بھی اک دائرے میں قید رہی
چراغ بھی جو ہوئے ہم تو اک بھنور کے رہے
وہ لوگ تھے جو کہانی کے مرکزی کردار
وہ حرف حرف جیے خواب خواب مر کے رہے
شکستگی تھی مقدر بدن تھے شیشے کے
ذرا سی ٹھیس بہانہ ہوئی بکھر کے رہے
لہو کی لہر اٹھی تھی کہ سر سے گزرے گی
چڑھے تھے کتنے سمندر مگر اتر کے رہے
ہوا کے ساتھ ہی ہو لیں یہ تجربہ بھی سہی
سمٹ سمٹ کے رہے جس قدر بکھر کے رہے
چلو کہیں پئیں بیٹھیں غزل سنائیں سنیں
یہ مسئلے تو مرے دوست عمر بھر کے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.