نہ ختم ہوگی کبھی اب یہ بد حواسی کیا
نہ ختم ہوگی کبھی اب یہ بد حواسی کیا
رہے گی روز یہ دھرتی لہو کی پیاسی کیا
بدن کے ساتھ ہی روحیں بھی آج ہیں عریاں
لباس ایسے میں کیا اور بے لباسی کیا
جہاں کے لوگ بدلتے ہوں روز آئینے
وہاں کے لوگوں سے امید خود شناسی کیا
جسے بھی دیکھیے آتا ہے پونچھنے آنسو
تمام لوگ یہاں ہو گئے سیاسی کیا
ہمیں کو دیکھ کے حیران کیوں ہیں آئینے
فقط ہمارے ہی چہرے پہ ہے اداسی کیا
مری غزل پہ نہیں دھن رہا ہے کوئی بھی سر
مری غزل کے مضامین بھی ہیں باسی کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.