نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے
نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے
در و دیوار پہ پہرا ابھی تک روشنی کا ہے
نہا کر خون میں کانٹوں پہ اکثر رقص کرتا ہوں
یہ مستی بے خودی کی ہے یہ نشہ زندگی کا ہے
ہے آخر کس لیے قزاق غم پیہم تعاقب میں
تصرف میں ہمارے کیا کوئی لمحہ خوشی کا ہے
ملوں کس طور میں خود سے تشخص کس طرح ڈھونڈوں
یہاں تو آئنہ در آئینہ چہرہ اسی کا ہے
یہ سوچا ہے کہ چل کر دوستوں کے در پہ دستک دوں
ارادہ آج اپنے آپ سے کچھ دشمنی کا ہے
مری آنکھوں کو نسبت ہے کسی خورشید پیکر سے
نہ یہ شوخی انا کی ہے نہ یہ پرتو خودی کا ہے
یقیں آثار لمحوں پر جو سچ پوچھو تو راز اب تک
حکومت وہم ہی کی ہے تسلط خواب ہی کا ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 518)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.