نہ کوئی آبلہ پائی نہ گھاؤ چاہتی ہے
نہ کوئی آبلہ پائی نہ گھاؤ چاہتی ہے
ہماری خانہ بدوشی پڑاؤ چاہتی ہے
سکوت دہر رگوں میں اتر نہ جائے کہیں
یہ ٹھہری ٹھہری طبیعت بہاؤ چاہتی ہے
میں اک فقیر اسے دے چکا ہوں کب کا طلاق
مگر یہ دنیا کہ مجھ سے لگاؤ چاہتی ہے
ہوائے بحر ہوس میں ٹھٹھرنے والی روح
لبوں کی آگ بدن کا الاؤ چاہتی ہے
کوئی بھی شخص پہنچتا نہیں کنارے پر
یہ ناخدا کی ہے سازش یا ناؤ چاہتی ہے
نئی نویلی دلہن کی ہتھیلیوں کی طرح
مری غزل بھی ہمیشہ رچاؤ چاہتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.