نہ کوئی در نہ دریچہ مگر مکان تو ہے
نہ کوئی در نہ دریچہ مگر مکان تو ہے
زمیں ہے زیر قدم سر پہ آسمان تو ہے
ہزار جلووں کا تو رازداں ہے آئینہ
ہوئی نہ آنکھ میسر تجھے زبان تو ہے
بدلتا رہتا ہے رنگ آسمان لمحوں میں
ستم شعار ابھی مجھ سے خوش گمان تو ہے
غم حیات سے گھبرا کے تجربے کے لئے
چلے ہی جائیں گے اب دوسرا جہاں تو ہے
تمام صحرا و دشت و جبل کہیں لبیک
ازل سے پھیلی فضاؤں میں اک اذان تو ہے
زہے نصیب جگہ تھوڑی چشم تر میں ملی
سلگتی دھوپ میں اک سرد سائبان تو ہے
مہر بہ لب ہوں پہ شرط کلام قائم ہے
مری شکیب ایازی کا امتحان تو ہے
سعود فکر تغزل کو بوجھ ہے تو رہے
ہر ایک حرف حقیقت کا ترجمان تو ہے
اثر کے شعر میں حسن و کشش کی ہے توجیہہ
نئی جہت نہ سہی زیب داستان تو ہے
- کتاب : Shajare Sayadar (Poetry) (Pg. 111)
- Author : Marghoob Asar Fatmi
- مطبع : Arshia Publications (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.