نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا
نہ کوئی شام تھی اس دن کی نہ سویرا تھا
نہ کوئی عکس تھا اس میں نہ کوئی چہرہ تھا
شب خیال میں کچھ تیرتی سی کرنیں تھی
فراز فکر کے اوپر چراغ میرا تھا
ستارے دیکھ کے اس کو چراغ پا تھے بہت
وہ چاند اپنی حویلی سے آج نکلا تھا
ہوا کی زد میں تھے جتنے بھی دیپ تھے اس کے
سلگ رہا تھا جو دل میں چراغ میرا تھا
عجیب طرح کے نعرے لگا رہی تھی شام
اور اک اداس پرندہ شجر پہ بیٹھا تھا
تم آئے ہو تو سنی چاپ اپنے قدموں کی
بہت دنوں سے مجھے انتظار میرا تھا
گلاب رنگ تھے شبنم کے پاؤں تھے اس کے
وہ چاندنی کا بدن کس قدر سنہرا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.