نہ کچھ آغاز ہوتا ہے نہ کچھ انجام ہوتا ہے
نہ کچھ آغاز ہوتا ہے نہ کچھ انجام ہوتا ہے
تماشا گاہ عالم بس خدا کا نام ہوتا ہے
بہ نام مختلف دور سبو و جام ہوتا ہے
بظاہر فرق رنگینئ صبح و شام ہوتا ہے
مرے ساقی کا انداز کرم جب عام ہوتا ہے
تو ہر تار نفس حسن نظر کا رام ہوتا ہے
ہر اک امید میں مستور کچھ پیغام ہوتا ہے
نظر سے دوریٔ مقصد کا منزل نام ہوتا ہے
بہار میکدہ جب ساقیٔ گلفام ہوتا ہے
تو اول چشم رنگیں سے طلوع جام ہوتا ہے
سزاوار محبت کا یہی انعام ہوتا ہے
نظر کی آگ ہے دل مفت میں بدنام ہوتا ہے
بہر صورت اگر سودائے الفت خام ہوتا ہے
نتیجہ دل لگانے کا غم و آلام ہوتا ہے
بانداز خدایانہ بہ وصف شان شاہانہ
اشاروں پر کسی کے منحصر ہر کام ہوتا ہے
نہ چھیڑو یوں نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر دل کو
کسی کی بے خودی کا راز طشت از بام ہوتا ہے
طبیعت شادؔ ہو تو ہجر کے رنگین وقفوں میں
تصور آپ کی صورت کا مے آشام ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.