نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا
نہ مندر میں صنم ہوتے نہ مسجد میں خدا ہوتا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.