نہ میرے دل نے نہ ادراک نکتہ جو نے کیا
نہ میرے دل نے نہ ادراک نکتہ جو نے کیا
خدا گواہ ہے جو کچھ کیا وہ تو نے کیا
فریفتہ مجھے عالم کے رنگ و بو نے کیا
بڑا ستم ترے ملنے کی آرزو نے کیا
لحاظ دامن قاتل مرے لہو نے کیا
خیال شرط ادب خود رگ گلو نے کیا
خود اپنی زیست کا پردہ تھا جب الگ یہ ہوا
حجاب دور جمال رخ نکو نے کیا
بہار آئی تو کیا ناشگفتہ خاطر کو
فسردہ اور بھی اس موسم نمو نے کیا
حریم قدس میں پہنچائے گی شہادت خود
کہ میری روح کو طاہر مرے لہو نے کیا
تمہاری چارہ گری کو سلام ہے میرا
کہ ایک زخم کو سو زخم اک رفو نے کیا
وہ کیوں کر آ کے ملے خود یہ حال مجھ سے نہ پوچھ
برائے مقصد دل ترک آرزو نے کیا
جو زاہدوں نے نہ باطن کو دھو کے صاف کیا
تو کوئی کام نہ ظاہر کی شست و شو نے کیا
جز اپنے دل کے نہ پایا کسی نے اس کا نشاں
ہزار عقل کو آوارہ جستجو نے کیا
بڑی امید بندھی بے بسوں کو محشر میں
عجب کرشمہ ترے طرز گفتگو نے کیا
کہوں گا یار سے میں صاف صاف حشر کے دن
کہ مجھ سے ہجر میں جو کچھ ہوا وہ تو نے کیا
بجا رہے نہ مرے عقل و ہوش اے بیتابؔ
غضب کا مست مجھے پہلے ہی سبو نے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.