نہ میری بات ہی سمجھا نہ میرا مدعا سمجھا
نہ میری بات ہی سمجھا نہ میرا مدعا سمجھا
سنا قصہ مگر کیا جانے اس ظالم نے کیا سمجھا
سفینہ پار اس کا ہو گیا بحر محبت سے
ہر اک موج تلاطم خیز کو جو ناخدا سمجھا
یہ الہڑ پن ہے ظالم کا کہ ہے یہ بے رخی اس کی
ابھی تک مدعا میرا نہ وہ جان وفا سمجھا
نہ جنت کی تمنا ہے نہ اس کو حور کا لالچ
غلط مطلب ارے نادان تو نے شیخ کا سمجھا
فراق یار میں بھی نیند سی کچھ آ گئی مجھ کو
شب غم یہ سکوں پا کر کرم بے درد کا سمجھا
طبیعت ہی تو ہے ظالم نے مطلب میری باتوں کا
بھلا چاہا بھلا سمجھا برا چاہا برا سمجھا
دوبارہ کوچۂ محبوب میں جانے کی زحمت کر
پیام عشق بالتفصیل ان کو اے صبا سمجھا
جسے دیکھو وہ ٹھکرا کر گزر جاتا ہے تربت کو
نہ دنیا نے شہیدان وفا کا مرتبہ سمجھا
حقیقت میں یہ کعبہ ہے جہاں کرتا ہوں میں سجدے
یہ تیری بھول ہے زاہد جو اس کو بت کدہ سمجھا
بت کافر کے محفل میں اچانک چڑھ گئے تیور
ہمارے عرض مقصد کو خدا جانے وہ کیا سمجھا
کٹاتا ہے گلا ہنس ہنس کے اس کے اک اشارے پر
اسی کو بے مروت نے ہمیشہ بے وفا سمجھا
ہزاروں قافلے لوٹے ہیں جس نے راہ الفت کے
دل معصوم نے احمرؔ اسی کو رہنما سمجھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.