نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے
نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے
کچھ اک ڈھیر ہڈیوں کا یا کھال ہے
جو بیٹھے تو ہے روئے قالیں کا نقش
کھڑا ہو تو کاغذ کی تمثال ہے
کھٹکتا ہے پہلو میں یوں ہم نشیں
کہے تو یہ دل تیر کی بھال ہے
گرفتار ہے جو تری زلف کا
وہ ہر قید سے فارغ البال ہے
اٹھا روند ڈالے اک عالم کے دل
بھلا شوخ یہ بھی کوئی چال ہے
الجھتا ہے جی شیخ کی ریش دیکھ
وہ سچ ہے مثل بال جنجال ہے
دھڑکنے کا دل پر ہے گاہے ہجوم
گہے چشم گریہ کی پامال ہے
یہ گویا در دولت عشق پر
دل و دیدہ سامان گھڑیال ہے
خوش آئی ہے قائمؔ یہی گر زمیں
تو پھر کہہ نہ مضموں کا کیا کال ہے
- Deewan-e-Qaem Chandpuri (Rekhta Website)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.