نہ رہ گزر میں تھی تیری نہ کائنات میں تھی
نہ رہ گزر میں تھی تیری نہ کائنات میں تھی
سفر کی ساری صعوبت مری حیات میں تھی
نہ جانے کتنے ہی منظر تھے نقش آنکھوں میں
ہماری سوچ کی منزل کسی کی ذات میں تھی
مجھے کہاں سے کہاں لے گئی ذرا دیکھو
وہ ایک طنز کی خوشبو جو اس کی بات میں تھی
ہمیں جو پھول بنایا تو دیتے خوشبو بھی
ہماری مٹی اے بت گر تمہارے ہاتھ میں تھی
ابھی تو سرحد ساحل پہ تھا قدم اس کا
عجیب سنسنی لیکن ہماری ذات میں تھی
مرے بدن کی حرارت بھی لے گئی پیکرؔ
وہ کالی رات جو برسوں سے میری گھات میں تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.