نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی
نہ روح مذہب نہ قلب عارف نہ شاعرانہ زبان باقی
زمیں ہماری بدل گئی ہے اگرچہ ہے آسمان باقی
شب گزشتہ کے ساز و ساماں کے اب کہاں ہیں نشان باقی
زبان شمع سحر پہ حسرت کی رہ گئی داستان باقی
جو ذکر آتا ہے آخرت کا تو آپ ہوتے ہیں صاف منکر
خدا کی نسبت بھی دیکھتا ہوں یقین رخصت گمان باقی
فضول ہے ان کی بد دماغی کہاں ہے فریاد اب لبوں پر
یہ وار پر وار اب عبث ہیں کہاں بدن میں ہے جان باقی
میں اپنے مٹنے کے غم میں نالاں ادھر زمانہ ہے شاد و خنداں
اشارہ کرتی ہے چشم دوراں جو آن باقی جہان باقی
اسی لیے رہ گئی ہیں آنکھیں کہ میرے مٹنے کا رنگ دیکھیں
سنوں وہ باتیں جو ہوش اڑائیں اسی لیے ہیں یہ کان باقی
تعجب آتا ہے طفل دل پر کہ ہو گیا مست نظم اکبرؔ
ابھی مڈل پاس تک نہیں ہے بہت سے ہیں امتحان باقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.