نہ سہی عیش، گزارا ہی سہی
یعنی گر تو نہیں دنیا ہی سہی
چھوڑیئے کچھ تو مرا بھی مجھ میں
خون کا آخری قطرہ ہی سہی
غور تو کیجے مری باتوں پر
عمر میں آپ سے چھوٹا ہی سہی
رنج ہم نے بھی جدا پائے ہیں
آپ یکتا ہیں تو یکتا ہی سہی
میں برا ہوں تو ہوں اب کیا کیجے
کوئی اچھا ہے تو اچھا ہی سہی
کس کو سینے سے لگاؤں ترے بعد
جاتے جاتے کوئی دھوکہ ہی سہی
کر کچھ ایسا کہ تجھے یاد رکھوں
بھول جانے کا تقاضا ہی سہی
تم پہ کب روک تھی چلتے جاتے
میری سوچوں پہ تو پہرہ ہی سہی
وہ کسی طور نہ ہوگا میرا
چلو ایسا ہے تو ایسا ہی سہی
سرخ کرنے لگی ہر شے جوادؔ
یاد کا رنگ سنہرا ہی سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.