نہ صرف دل ہی گیا دل کا مدعا بھی گیا
نہ صرف دل ہی گیا دل کا مدعا بھی گیا
وہ کیا گئے کبھی ملنے کا سلسلہ بھی گیا
میں اس کو جانے سے روکوں تو کس طرح روکوں
میں سوچتی ہی رہی اور وہ چلا بھی گیا
وہ اور دن تھے کہ جب زندگی میں سب کچھ تھا
اب اس کے بعد تو جینے کا حوصلہ بھی گیا
حصول زر کی ہوس اس کو لے گئی پردیس
سکون دل کی وہ دولت مگر لٹا بھی گیا
ہوا کا جھونکا جو شاخوں کو گدگداتا تھا
وہ ہنستے پھولوں کو چھو کر انہیں رلا بھی گیا
وہ شہر سنگ میں پہنچا تو ہو گیا پتھر
اب اس سے ملنے کا پر کیف سلسلہ بھی گیا
کوئی بتائے تو نسرینؔ ہم کہاں جائیں
اسے بھی پا نہ سکے ہاتھ سے خدا بھی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.