نہ تو مے سے نہ جام سے خم سے
نہ تو مے سے نہ جام سے خم سے
بن گئی بات اک تصادم سے
تم مجھے بھی کبھی صدا دو گے
یہ توقع نہ تھی کبھی تم سے
کچھ نہ کچھ داد مل گئی اس کو
پڑھتا ہے جو غزل ترنم سے
مرنے والا بھی بچ گیا آخر
آپ کے صرف اک تبسم سے
کیا تمنا کرے وہ ساحل کی
کھیلتا ہے جو خود تلاطم سے
عشق کے زہر کا جو عادی ہو
خوف کیا اس کو زہر کژدم سے
جن کو حاصل تھیں دائمی خوشیاں
کس لئے آج ہیں وہ گم سم سے
موت سے پہلے مر چکے کتنے
خوف سے یا کسی توہم سے
غرق بیڑے ہوئے ہیں باطل کے
عزم خاکیؔ کے جوش قلزم سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.