نہ الٹی اس نے محفل میں نقاب اول سے آخر تک
نہ الٹی اس نے محفل میں نقاب اول سے آخر تک
رہی پھر بھی تجلیٔ برق تاب اول سے آخر تک
اٹھاتا ہوں نظر جب جانب افلاک مستی میں
تو اٹھ جاتے ہیں یہ ساتوں حجاب اول سے آخر تک
وہ آئیں گے نہیں آئے خط آئے گا نہیں آیا
غلط نکلی مری تعبیر خواب اول سے آخر تک
ہوئی ہر بار میری باریوں پر بھول ساقی کو
مجھے خالی دیا جام شراب اول سے آخر تک
گنو دونوں طرح اپنے مظالم ٹھیک نکلے گا
شمار آخر سے اول تک حساب اول سے آخر تک
جو قصہ ہے شگاف سینۂ خود چاک کے لب پر
بگوش چشم سن لیں آنجناب اول سے آخر تک
کہیں عمر رواں دم بھر ٹھہرنے کو نہیں رکتی
رہا کرتی ہے یہ پا در رکاب اول سے آخر تک
کتاب عشق پڑھنی چاہیے تجھ کو بھی اے ناصح
بڑا دلچسپ ہے ایک ایک باب اول سے آخر تک
شب سرد زمستاں کی طرح افسردہ افسردہ
گزرتا ہے غریبوں کا شباب اول سے آخر تک
گلوں کے درمیاں شور فغاں کرتی رہی بلبل
نہ چونکا ایک بھی غفلت مآب اول سے آخر تک
کنارے پار کر کے سست ہو جاتا ہے دریا بھی
کسے رہتا ہے یکساں اضطراب اول سے آخر تک
بہت جھڑکا بہت ڈانٹا بہت تنبیہ کی مجھ کو
بہت پر لطف تھا ان کا خطاب اول سے آخر تک
گناہوں ہی گناہوں میں کٹی ہے زندگی میری
یہی میں نے کمائے ہیں ثواب اول سے آخر تک
تعجب ہے کہ میں جاں سوختہ زندہ رہا کیوں کر
جدائی تھی جہنم کا عذاب اول سے آخر تک
یہ اچھا ہی ہوا ہم کامیاب قرب ہونے میں
بہ ہر صورت رہے نا کامیاب اول سے آخر تک
حیات افروز تھی ان کی جوانی جن شہیدوں نے
لگائے نعرہ ہائے انقلاب اول سے آخر تک
جسے بے مثل انداز سخن ہو دیکھنا انورؔ
پڑھے میرا کلام لا جواب اول سے آخر تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.