نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
دل برباد کو اس طرح سے آباد رکھا ہے
جھمیلے اور بھی سلجھانے والے ہیں کئی پہلے
اور اس کے وصل کی خواہش کو سب سے بعد رکھا ہے
رکا رہتا ہے چاروں سمت اشک و آہ کا موسم
رواں ہر لحظہ کاروبار ابر و باد رکھا ہے
پھر اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہی کیا ہو
اگر اس شوخ پر دعویٰ ہی بے بنیاد رکھا ہے
خزاں کے خشک پتے جس میں دن بھر کھڑکھڑاتے ہیں
اسی موسم کا نام اب کے بہار ایجاد رکھا ہے
یہ کیا کم ہے کہ ہم ہیں تو سہی فہرست میں اس کی
بھلے نا شاد رکھا ہے کہ ہم کو شاد رکھا ہے
جسے لفظ محبت کے معانی تک نہیں آتے
اسے اپنے لیے ہم نے یہاں استاد رکھا ہے
جواب اپنے کو چاہے جو بھی وہ ملبوس پہنائے
سوال اس دل نے اس کے آگے مادر زاد رکھا ہے
ظفرؔ اتنا ہی کافی ہے جو وہ راضی رہے ہم پر
کمر اپنی پہ کوئی بوجھ ہم نے لاد رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.