نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی
نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی
مگر اب بھی میری زباں پہ ہے وہی داستاں سن و سال کی
چلو بال و پر کو سمیٹ لیں کریں فکر اب کسی ڈال کی
یہ غروب مہر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
سبھی موسموں سے گزر گیا کوئی بوجھ دل پہ لئے ہوئے
مجھے راس آئی نہ رت کوئی نہ وہ ہجر کی نہ وصال کی
تھا دلوں کا یہ بھی اک امتحاں کہ تکلفات تھے درمیاں
مجھے ڈر تھا اس کے جواب کا اسے فکر میرے سوال کی
جو چلے تو راہ اماں نہیں جو رکے تو منزلیں کھو گئیں
تری رہ گزر بھی عجیب ہے تری منزلیں بھی کمال کی
مرے زخم سارے مہک اٹھے جو چلی ہوائے نہال غم
کوئی دشت جاں سے گزر گیا اٹھی گرد تیرے خیال کی
وہ مجھے ملا بھی تو اس طرح ملیں جیسے شمس و قمر ضیاؔ
تھا جو لمحہ اس کے عروج کا وہ گھڑی تھی میرے زوال کی
- کتاب : Pas-e-Gard-e-Safar (Pg. 40)
- Author : Zia Farooqui
- مطبع : Educational Publishing House (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.