نام جانے کا نہ لو قلب کے کاشانے سے
نام جانے کا نہ لو قلب کے کاشانے سے
میں تو لٹ جاؤں گا اس گھر کے اجڑ جانے سے
غیظ ہے بزم کے اندر جو چلے آنے سے
کچھ میں باہر بھی نہیں آپ کے فرمانے سے
صاف ظاہر ہے یہ قلقل کی صدا آنے سے
گفتگو ہوتی ہے کچھ شیشہ و پیمانے سے
شمع رو تک وہی لے جائے گا نامہ میرا
ہاں اگر کام یہ نکلے گا تو پروانے سے
سب یہ تھی خال رخ یار کی کارستانی
مرغ دل پھانس لیا زلف نے اس دانے سے
ترک مے کے لئے زاہد تو مرا مغز نہ کھا
اور ضد ہوتی ہے انسان کو سمجھانے سے
غیر سے تم کو تعلق نہیں کچھ یہ سچ ہے
شک مگر بڑھتا ہے ہر بار قسم کھانے سے
عشوہ و غمزہ و انداز ہی جب کھنچ نہ سکے
مدعا یار کی تصویر کے کھینچوانے سے
خواب مرگ آنکھ میں آتے ہی گئی بے چینی
جی گیا تیغ کے دامن کی ہوا کھانے سے
کس کے گھر جانے کو تیار وہ ہوتے ہیں کہ آج
ان کو فرصت ہی نہیں آئینہ و شانے سے
کشت وحشت پہ جو وہ آب کرم برسائے
شاخیں نکلیں ابھی زنجیر کے ہر دانے سے
قدرتی حسن کا خاکہ کہیں اڑ سکتا ہے
کیوں کشیدہ ہیں وہ تصویر کے کھینچوانے سے
بزمؔ واں دل کے بہلنے کی کوئی شکل نہیں
جائیں کعبہ کو کس امید پہ بت خانے سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.