ناقۂ وقت نکلتی ہی چلی جاتی ہے
جسم سے خاک پھسلتی ہی چلی جاتی ہے
زخم سینے میں چھپا رکھ کہ ہوا ہے ایسی
خاک ہر پھول پہ ملتی ہی چلی جاتی ہے
ہیں سب آئینے پریشاں کہ عروس فطرت
رنگ ہر لحظہ بدلتی ہی چلی جاتی ہے
دل شکن کتنی ہے اس خاک رواں کی رفتار
پا شکستوں کو کچلتی ہی چلی جاتی ہے
کس کی رہ دیکھ رہی ہے کہ کوئی شمع وفا
دل سے خیمے میں بھی جلتی ہی چلی جاتی ہے
سر میں کیا شعلۂ خود سر ہے کہ نیچے ہر شے
موم کی طرح پگھلتی ہی چلی جاتی ہے
ہاتھ پاؤں تو میں ماروں ہوں پہ وہ چشم فسوں
مثل گرداب نگلتی ہی چلی جاتی ہے
پھول پھینکے ہیں کسی یاد نے کیا کیا حیدرؔ
دل میں جو راکھ تھی جلتی ہی چلی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.