ناروا تھا نا مناسب تھا مگر اچھا لگا
ناروا تھا نا مناسب تھا مگر اچھا لگا
بے وفا اک دشمنوں کی پشت پر اچھا لگا
وہ اچانک لوٹ آیا توڑ کر رسم فراق
گرمیوں میں سرد موسم کا ثمر اچھا لگا
لگ گئی شاید مجھے آوارگی کی بد دعا
لوٹ کر اب کے میں آیا ہوں تو گھر اچھا لگا
ہر کسی سے ہنس کے ملنا خوش دلی سے بولنا
میرا دشمن ہے مگر اس کا ہنر اچھا لگا
یہ محبت ہے مری یا اس کا ہے کوئی کمال
جس قدر پرکھا اسے وہ اس قدر اچھا لگا
آنے والے موسموں کی سختیوں کے ذکر پر
اس کے چہرے پر اکیلے پن کا ڈر اچھا لگا
اب کے اس کے قرب کی جنت بھی دیکھی پاس سے
اب کے مجھ کو خواب زاروں کا سفر اچھا لگا
میرے بارے میں مجھی سے پوچھتا ہے وہ نعیمؔ
اس خبر کے دور میں اک بے خبر اچھا لگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.