ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
ناصح کو جیب سینے سے فرصت کبھو نہ ہو
دل یار سے پھٹے تو کسی سے رفو نہ ہو
اس دل کو دے کے لوں دو جہاں یہ کبھو نہ ہو
سودا تو ہووے تب یہ کہ جب اس میں تو نہ ہو
آئینۂ وجود عدم میں اگر ترا
وہ درمیاں نہ ہو تو کہیں ہم کو رو نہ ہو
جھگڑا تو حسن و عشق کا چکتا ہے پل کے بیچ
گر محکمے میں قاضی کے تو روبرو نہ ہو
قطرہ کی کھل گئی ہے گرہ ورنہ اے نسیم
شور دماغ مرغ چمن گل کی بو نہ ہو
گزرے سو گزرے اہل زمیں اوپر اے فلک
آئندہ یاں تلک تو کوئی خوب رو نہ ہو
دل لے کے تجھ سے برق کے شعلے کو دیجیے
پر ہے یہ ڈر کہ اس کی بھی ایسی ہی خو نہ ہو
گل کی نہ تخم مرغ چمن کر سکے تلاش
ہم خام فطرتوں سے تری جستجو نہ ہو
سوداؔ بدل کے قافیہ تو اس غزل کو کہہ
اے بے ادب تو درد سے بس دوبدو نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.