نازک ہے دل یار نہ ہو غم کی خبر کاش
نازک ہے دل یار نہ ہو غم کی خبر کاش
نالہ مرے دل میں پھرے محروم اثر کاش
میں یاد میں اس کی دی و فردا کو نہ جانوں
یہ عمر دو روزہ یوںہی ہو جائے بسر کاش
نقصان دل و جاں ہے تو راضی ہوں میں اس پر
کچھ اور محبت میں نہ ہو خوف و خطر کاش
ہم دہر میں ہر ایک بد و نیک سے ملتے
لیکن ترے ملنے سے کئے جاتے حذر کاش
عشاق کے نالوں سے جگر ہوتے ہیں ٹکڑے
ہمدم کسی بیدل کا نہ ہو مرغ سحر کاش
ہم قالب خاکی کو لئے پھرتے ہیں کب سے
گر جائے کہیں دوش سے یہ بار سفر کاش
بیتاب ہے پیہم کہیں تیروں سے چھدے یہ
دل باعث آزار ہے اس کا ہو ضرر کاش
دکھلاؤں ہجوم غم اسیران وفا کو
دے دے کوئی ہمسایۂ زنداں مجھے گھر کاش
دل ولولۂ شوق کا انجام تو جانے
دیکھیں وہ تغافل سے ادھر ایک نظر کاش
اطوار زمانہ کے بدل جاتے ہیں آخر
کچھ دن کے لئے عشق بھی ہو جائے ہنر کاش
اس فتنۂ آفاق کو کیوں دیکھنے نکلے
رسوائے جہاں ہوتے نہ یوں شمس و قمر کاش
میں عہد جوانی میں فلک مرتبہ ہوتا
بار غم الفت سے نگوں ہوتی کمر کاش
بے درد نہیں گریہ مرا وہ بھی تو جانیں
اشکوں میں چلا آئے کوئی لخت جگر کاش
مجھ بے سر و پا خاک نشیں کو بھی ملے داد
اے بیکسیٔ شوق وہ آ جائیں ادھر کاش
بے منت درباں ہے مجھے حسرت دیدار
محمل کا اڑے پردہ سر راہ گزر کاش
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.