نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
نبض ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے
وقت خود شیشۂ ساعت سے نکلنا چاہے
دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں
ایک چشمہ کہ جو پتھر سے ابلنا چاہے
مجھ کو منظور ہے وہ سلسلۂ سنگ گراں
کوہ کن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے
تھم گیا آ کے دم باز پسیں لب پہ وہ نام
دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے
ہم تو اے دور زماں خاک کے ذرے ٹھہرے
تو تو پھولوں کو بھی قدموں میں مسلنا چاہے
کہہ رہی ہے یہ زمستاں کی شب چاردہم
کوئی پروانہ جو اس آگ میں جلنا چاہے
عمر اسی ٹھوکریں کھانے کے عمل میں گزری
جس طرح سنگ ڈھلانوں پہ سنبھلنا چاہے
صبح دم جس نے اچھالا تھا فضا میں خورشید
دل سر شام اسی بام پہ ڈھلنا چاہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.