نئے در پہ عقیدت ہو گئی ہے
نئے در پہ عقیدت ہو گئی ہے
انہیں پھر سے محبت ہو گئی ہے
حقیقت کو فسانہ کر دیا ہے
فریبی اب صداقت ہو گئی ہے
نہ آنکھوں میں رہا پانی حیا کا
ادب تہذیب رخصت ہو گئی ہے
چلا جانا ترا اچھا ہوا ہے
تمہارے غم سے فرصت ہو گئی ہے
تماشہ دیکھنا جچتا نہیں تھا
مگر اب اس کی عادت ہو گئی ہے
مزے سے زندگی کٹتی تھی لیکن
تعلق میں سیاست ہو گئی ہے
جنہیں انگلی پکڑ چلنا سکھایا
انہیں مجھ سے عداوت ہو گئی ہے
بھروسہ یوں نہیں کرنا کسی پہ
دکھاوے کی شرافت ہو گئی ہے
ابھےؔ کے چاہنے والے بہت تھے
غزل کہہ دی تو آفت ہو گئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.