نئے دریا سے رشتہ ہو گیا ہے
نئے دریا سے رشتہ ہو گیا ہے
سمندر اور گہرا ہو گیا ہے
نہ جانے ظاہر و باطن کہاں ہیں
مرا دونوں سے جھگڑا ہو گیا ہے
مری آنکھیں بھی آنکھیں ہو گئی ہیں
ترا چہرہ بھی چہرہ ہو گیا ہے
کئی دیواریں نیچی رہ گئی ہیں
کئی مینار اونچا ہو گیا ہے
میں اب برباد ہو سکتا ہوں خود بھی
تمہارا کام پورا ہو گیا ہے
ذرا غالب سے جھک جھک ہو گئی تھی
طرف داروں کا حملہ ہو گیا ہے
وہ اشکوں سے چکانا پڑ رہا ہے
مناظر کا جو قرضہ ہو گیا ہے
ہنسی میں دم نہیں ہے چارہ گر کی
کوئی بیمار اچھا ہو گیا ہے
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 21)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.