نئے زمانے کی صورت میں ڈھلنا چاہیے تھا
نئے زمانے کی صورت میں ڈھلنا چاہیے تھا
ہمارے شہر کا موسم بدلنا چاہیے تھا
یہ شوخیاں یہ تبسم پہ زلف لہرانا
انہیں اداؤں پہ دل کو مچلنا چاہیے تھا
بچھڑ کے اس سے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے
جو عشق ہے تو اسے بھی تڑپنا چاہیے تھا
تمہاری راہ میں پتھرا گئیں مری آنکھیں
اب انتظار کا پتھر پگھلنا چاہیے تھا
میں جس کی آنکھوں میں ڈوبا ہوں ایک مدت سے
حد بدن سے اسے بھی نکلنا چاہیے تھا
اشارہ کس کا تھا جو ڈوب کر نکل آیا
یہ آفتاب سے نکتہ سمجھنا چاہیے تھا
جو جاں کے خوف سے ظالم سے لڑ سکا نہ کششؔ
اسے بھی حق کی وکالت تو کرنا چاہیے تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.