نفس نفس ہے بھنور چڑھتی شب کا منظر ہے
نفس نفس ہے بھنور چڑھتی شب کا منظر ہے
حصار جسم میں اک چیختا سمندر ہے
ہوائے تازہ کے مانند مت لپٹ مجھ سے
گئی رتوں کا بہت زہر میرے اندر ہے
نکل کے جاؤں گنہ گار تیرگی سے کدھر
ہر ایک ہاتھ میں اب روشنی کا پتھر ہے
اک آگ اڑتی ہوئی سی وہی تعاقب میں
بدن کی راکھ ابھی شاید بدن کے اندر ہے
تو کیوں اڑھاتا ہے مجھ کو یہ روشنی کی ردا
مجھے خبر ہے اندھیرا مرا مقدر ہے
صلیب شب سے مصورؔ سحر کے مقتل تک
کہاں ملیں کہ ہر اک فاصلہ برابر ہے
- کتاب : Manghii dhire chal (Pg. 96)
- Author : Musavvir Sabzwari
- مطبع : Nazish Book Center (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.