نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں
نفس نفس زندگی کے ہو کر اجل کی تشہیر کر رہے ہیں
یہ کس جتن میں لگے ہیں ہم سب کسے جہانگیر کر رہے ہیں
کہاں پتہ تھا تری شفق ہی پس غبار زوال ہوگی
تجھی کو مسمار کر دیا تھا تری ہی تعمیر کر رہے ہیں
رہ شہادت پہ سر کے ہم راہ اک آسیب چل رہا ہے
ہمیں نہ نکلیں یزید دوراں کہ خود کو شبیر کر رہے ہیں
صدائیں دیتی ہوئی خلائیں کہیں زمینوں تک آ نہ جائیں
یہ خواب کاری پر تکلف برائے تعبیر کر رہے ہیں
اگرچہ پہلے یقین کم تھا پر اب تو تصدیق ہو چکی ہے
نہ جانے رد عمل میں کیوں ہم مزید تاخیر کر رہے ہیں
ہمارے سارے گناہ واعظ مقالۂ افتتاحیہ ہیں
ابھی تو ہم نامۂ عمل کا مقدمہ تحریر کر رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.