نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے
نفس سگ پلید کو گر اپنے ماریے
مانند شیر دشت جہاں میں ڈکاریے
اس گل کو جوش گل میں یہ کہہ کر ابھاریے
گلشن میں عندلیب کو چل کر پکاریے
پھر مرغ دل کو پھانسیے پھر جال ماریے
پھر ہو سکے تو آپ سے گیسو سنواریے
پیری میں کیف عشق سے توبہ تو کیجیے
منزل رہی ہے تھوڑی سی ہمت نہ ہاریے
گرداب بحر عشق کے چکر ہیں رات دن
کون آشنائے حال ہے کس کو پکاریے
دل دے کے جور و ظلم کا شکوہ نہ کیجیے
دو دن کی زندگی کسی ڈھب سے گزاریے
اہل ہوس کی دہر میں مٹی خراب ہے
گلیوں میں خاک چھان رہی ہیں نیاریے
مانند زلف غیر کو کیوں سر چڑھائیے
آنکھوں سے شکل اشک کے اس کو اتارئیے
پیدا کریں اثر جو در اشک ناصحو
ان موتیوں پہ ہنس کو سو بار واریے
جز میرے دال آپ کی گلتی نہیں کہیں
یوں منہ سے جتنی چاہئے شیخی بگھاریے
نالہ جو زیر تیغ کیا میں نے جس گھڑی
بولے کہ ایک دم کے لئے دم نہ ماریے
توبہ شراب عشق سے کس طرح کیجیے
کیوں کر یہ جن چڑھا ہوا سر سے اتارئیے
کیا کیا نہ دوست اپنے میان عدم گئے
کس کو تلاش کیجیے کس کو پکاریے
اس بت کے بحر حسن میں دل کو ڈبوئیے
اس کشتیٔ حیات کو یوں پار اتارئیے
منظور ہو جو راحت کونین منتہیؔ
ہاتھوں کو کھیچ لیجئے پاؤں پساریے
- Deewan-e-MuntahiáKaristan-e-Fasahatâ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.