نغمہ جو محمل کے باہر ہے وہی محمل میں ہے
نغمہ جو محمل کے باہر ہے وہی محمل میں ہے
حال میں ظاہر ہے پوشیدہ جو مستقبل میں ہے
جس کا پرتو گیسوئے شب میں مہ کامل میں ہے
اک جھلک اس حسن پوشیدہ کی تیرے دل میں ہے
جلوۂ یزداں بھی رقص اہرمن بھی دل میں ہے
آدمی بھی کس قدر الجھن میں ہے مشکل میں ہے
کہہ رہا تھا ایک دیوانہ یہ ہنگام سفر
رہ نوردی میں جو راحت ہے وہی منزل میں ہے
حوصلہ مندان غواصان دریا کے لئے
زندگی موجوں میں ہے جو وہ کہاں ساحل میں ہے
اپنی فطرت پر چمن میں خار و گل تو ہیں مگر
اک تضاد مستقل اس مشت آب و گل میں ہے
جام ہے مینا ہے صہبائے جنوں افزا بھی ہے
ساقیا آ جا کہ اک تیری کمی محفل میں ہے
بے رہ و بے رہنما گرم سفر ہے قافلہ
فائدہ کیا اس طرح کی سعئ لا حاصل میں ہے
پیکر شوق و طلب بن کر جو ہے گرم سفر
ہر قدم اس راہ رو کا سرحد منزل میں ہے
مرجع الہام بن سکتا ہے کوشش ہو اگر
اک مقام ایسا بھی پنہاں آدمی کے دل میں ہے
آفتاب دل سے گرما اور چمکا دے اسے
ذرۂ حق جو نہاں گرد رہ باطل میں ہے
دل تو ہے نا آشنائے بادہ ہائے زندگی
جام و مینا کا مگر سودا سر غافل میں ہے
ڈھونڈتے رہیے مگر امجدؔ کو پا سکتے نہیں
وہ تو اب اک نور کے دریائے بے ساحل میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.