نغمہ تھا یا کہ گیت سنائی نہیں دیا
نغمہ تھا یا کہ گیت سنائی نہیں دیا
ایسا تھا گہرا رنگ دکھائی نہیں دیا
ابھری تھی ایک شکل فصیل نگاہ پر
پھر اس کا کوئی نقش دکھائی نہیں دیا
میں کھیلتا رہا انہیں طغیانیوں کے بیچ
طوفاں کا شور کچھ بھی سنائی نہیں دیا
جب دل میں آ گیا مرے گھر بار چھوڑ کر
پھر ایسا کیا ہوا کہ دکھائی نہیں دیا
تاروں کی دھوپ چھانو میں سویا تمام رات
جو خواب دیکھنا تھا دکھائی نہیں دیا
آہستگی سے وہ مری جاں میں اتر گیا
ہنگامہ ایسا تھا کہ سنائی نہیں دیا
ٹکرا کے خود سے رہ گئی میری نگاہ شوق
موجوں کے آر پار دکھائی نہیں دیا
ہر نوک خار کو میں دکھاتا لہو کا رنگ
صحرا نے اذن آبلہ پائی نہیں دیا
ہلچل مچا دی اس نے مری ذات میں مگر
کچھ حوصلۂ سنگ کشائی نہیں دیا
اس کی صدا نواح دل یاسمن کی تھی
یعنی کہ درس شعلہ نوائی نہیں دیا
بیٹھا ہوا ہے غم کی طرح دل کی راہ میں
اس نے بچھڑ کے درد جدائی نہیں دیا
وہ چاند جس کو چاند کہیں کائنات کا
ایسا تو کوئی چاند دکھائی نہیں دیا
کیا نقش پائے گل ہیں جو تکتا ہے غور سے
مجھ کو تو کچھ زمیں پہ دکھائی نہیں دیا
اجملؔ جمال یار کی رعنائی کچھ نہ پوچھ
عکس رخ خیال دکھائی نہیں دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.