نغمہ یوں ساز میں تڑپا مری جاں ہو جیسے
نغمہ یوں ساز میں تڑپا مری جاں ہو جیسے
میرا دم ہو مرے سینے کی فغاں ہو جیسے
یک بیک روح میں اٹھا ہے وہ طوفان خموش
وادئ گل میں نسیم گزراں ہو جیسے
نغمہ و رقص ہوئی جاتی ہے ہر موج خیال
چاندنی رات میں دریا کا سماں ہو جیسے
کیا سناتی ہے یہ سازوں کی صدائے دل سوز
کچھ ہمیں درد نصیبوں کا بیاں ہو جیسے
یوں تری چشم مدارات پہ دل بھولا ہے
نشۂ مے پہ جوانی کا گماں ہو جیسے
دل ہے یوں بے دلیٔ ہوش کے ہاتھوں لرزاں
کوئی قاتل سے طلب گار اماں ہو جیسے
راہ جینے کی کہاں سوختہ جانی کے بغیر
ہر نفس شعلۂ خاطر کا دھواں ہو جیسے
خوب نقشہ ہے مرے فکر کی جولانی کا
کوئی کم بخت اسیری میں جواں ہو جیسے
اس نے یوں عرض محبت پہ سنبھل کر دیکھا
اس کے دل کو تو خبر ہو نہ گماں ہو جیسے
اک نوا حاصل صد عہد فغاں ہے حقیؔ
بوئے گل لاکھ بہاروں کا نشاں ہو جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.