نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو ان کے دہن نہیں ہے
نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو ان کے دہن نہیں ہے
دہن تو ہے پر ہے تنگ ایسا کہ جس میں جائے سخن نہیں ہے
نہیں ہیں محتاج کچھ صبا کے یہاں تک اب لاش گھل گئی ہے
کہ ہم کو کافی ہے نکہت گل کہ اس قدر بار تن نہیں ہے
ہوئے ہیں اس درجہ بے نشاں ہم نہ جستجو سے ملیں کسی کو
کہ ہیں غبار صبا پریدہ کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
ملے بھی ہم کو جو چادر شب تو لاغری سے نہ کام آئے
کفن ہوا بھی اگر میسر تو کیا کریں ہم بدن نہیں ہے
کرو نہ منت کشی عیسیٰ اٹھاؤ دست دعا اجل کو
شفا ہو مرہم سے جس کو حاصل وہ میرا داغ کہن نہیں ہے
گئے چمن میں جو سیر کو ہم تو یہ کہا دل نے بوستاں میں
بہار گلشن کی کون دیکھے کہ بلبل نغمہ زن نہیں ہے
جلا جو پروانہ اس کے غم میں تو پاس شرط وفا کے باعث
وہ کون شب ہے جو اشک پیہم سے شمع کا پر لگن نہیں ہے
یہ رحم صیاد بھی ستم ہے کرے خزاں میں جو وا قفس کو
بہار دیکھے گی کس کی بلبل کہ اب وہ لطف چمن نہیں ہے
عبث تکلف پس فنا ہے لحد پہ بے چارگاں کی ہم دم
ہمیں تو کافی ہے بوئے سبزہ جو چادر یاسمن نہیں ہے
یہ جوش وحشت ہے ان دنوں میں کہ اپنے سائے سے ہوں رمیدہ
کہوں جو خود کو غزال وحشی تو کوئی ایسا ہرن نہیں ہے
جو ہیں نزاکت پسند عالم کہیں گے بے شک وہ منصفی سے
بہت ہیں استاد یوں تو لیکن نسیمؔ کا سا سخن نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.