نہیں معلوم راتوں کا اندھیرا کس کو تکتا ہے
نہیں معلوم راتوں کا اندھیرا کس کو تکتا ہے
ہمارا سر مثال مہر نیزے پر چمکتا ہے
وفور تشنگی نے کس بلا کا سحر پھونکا تھا
سمندر آج تک میرے تعاقب میں بھٹکتا ہے
رگیں بربط کی ٹوٹیں زخم گر کی خود سرائی سے
خروش نالۂ غم محفلوں میں سر پٹکتا ہے
ہوائے جذبۂ تعمیر نے بستی مٹا ڈالی
ہوائے شورش تخریب سے جنگل مہکتا ہے
اسی دیوانگی میں منزلیں گم ہو گئیں مجھ سے
مرا ہم زاد میرے ساتھ کتنا دوڑ سکتا ہے
نہ جانے ہم سے کیا کہنے کو آئی ہے یہ تنہائی
کئی دن سے زباں پر قفل ہے ہونٹوں پہ سکتہ ہے
عروجؔ ایسی دلوں میں چاندنی پہلے نہ پھیلی تھی
نہ جانے کون مہوش اپنے دامن کو جھٹکتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.