نہیں معلوم کیوں نیارا لگے ہے
نہیں معلوم کیوں نیارا لگے ہے
ستمگر ہے مگر پیارا لگے ہے
نظر قاتل ادائیں جان لیوا
بدوں ہتھیار ہتھیارا لگے ہے
غضب میں وہ جلال مہر تاباں
تبسم میں وہ مہ پارہ لگے ہے
جگر تھامے کھڑا ہے راستے میں
یہ کوئی درد کا مارا لگے ہے
بہت امید نے دھوکے دئے ہیں
بڑی مکار عیارہ لگے ہے
جمال آرائی کا ہے اب یہ عالم
ہے سن ستر کا اٹھارہ لگے ہے
خدا سب کا خدا ہے شیخ صاحب
وہی میرا جو تمہارا لگے ہے
عدو کیوں آج ہے محفل سے غائب
ہوا نو اور دو گیارہ لگے ہے
سفر کم مختصر ہے زندگی کا
کہ عرصہ عمر کا سارا لگے ہے
ہوا میں محل سب کیوں ہیں بناتے
نہ پتھر اینٹ اور گارا لگے ہے
ہوا احساس تنہائی زیادہ
بجے ہیں رات کے بارہ لگے ہے
وفور آرزوئے وصل شاہدؔ
فساد نفس کا مارا لگے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.