نہیں مجھ کو حسرت ماسوا پس اب اس کی یاد سے کام ہے
نہیں مجھ کو حسرت ماسوا پس اب اس کی یاد سے کام ہے
نہ وہ اب شباب کے ولولے نہ خیال شیشہ و جام ہے
میں ترے ہی نام پہ ہوں فدا تری یاد کا مجھے آسرا
ترے سنگ در پہ مری قضا مری زندگی کا پیام ہے
کبھی آہ کی کبھی غش ہوئے کبھی دل کو تھام کے رو دئے
ترے ہجر میں ہمیں روز و شب یہی مشغلہ یہی کام ہے
جو نکل پڑے مرے اشک غم سر بزم آپ خفا نہ ہوں
جو ابل کے مل گئی خاک میں وہ شراب فاضل جام ہے
یہ نہ پوچھو کتنی ہے داستاں نہیں سننا چاہتے سو رہو
کہوں کیسے اپنی زباں سے میں کہ فسانہ میرا تمام ہے
جو گزر گیا کوئی راہ رو مری قبر پر تو یہ کہہ اٹھا
یہ کسی جوان کی قبر ہے کہ اداس جو سر شام ہے
ہوئیں چار آنکھیں بھی گر کبھی تو نگاہ شرم سے پھیر لی
یہ عجب طرح کی ہے دوستی نہ سلام ہے نہ کلام ہے
وہ جو اک ہے عالیؔ خستہ تن وہ اسیر زلف حبیب ہے
جہاں دیکھیے یہی تذکرہ یہی ذکر سا سر عام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.