نئی بزم عیش و نشاط میں یہ مرض سنا ہے کہ عام ہے
نئی بزم عیش و نشاط میں یہ مرض سنا ہے کہ عام ہے
کسی لومڑی کو ملیریا کسی مینڈکی کو زکام ہے
یہ عجیب ساقیٔ ماہ وش ترے مے کدے کا نظام ہے
ہوا جیسے تو بھی دیوالیہ نہ تو خم نہ مے ہے نہ جام ہے
یہاں ذکر آب و طعام کیا یہاں کھانا پینا حرام ہے
یہاں برت رکھتے ہیں روز سب یہاں روز ماہ صیام ہے
نہ تو متفق کسی امر میں نہ تو متحد کسی کام میں
مرے لیڈروں کا دماغ ہے کہ حماقتوں کا گودام ہے
ابھی ہے غریبوں کی چشم تر ابھی ان کے حال پہ اک نظر
ابے انقلاب ٹھہر ذرا ابھی تجھ سے اور بھی کام ہے
میں سنا چکا ہوں ہزار بار انہیں درد و یاس کی داستاں
نہ یقین ہو تو وہ پوچھ لیں کہ گواہ ٹیلی گرام ہے
ابھی اس کو جسم تو ڈھکنے دو ابھی اس کو پیٹ تو بھرنے دو
ابھی اس کو فکر عوام کیا ابھی ننگا بھوکا نظام ہے
وہی خادمانہ روش رہے یہ خیال رہبری چھوڑ دو
اسے پی سکو گے نہ دوست تم یہ بہت ہی گاڑھا قوام ہے
تجھے اپنے اور پرائے کا نہیں کچھ شعور ابھی تلک
مرے جاں نثاروں کی لسٹ میں ذرا دیکھ تیرا بھی نام ہے
بھلا شوقؔ ان سے دبیں گے کیا بھلا شوقؔ ان سے ڈریں گے کیا
بھلا شوقؔ در سے اٹھیں گے کیا یہ خیال دوست کا خام ہے
- کتاب : intekhab-e-kalam shauq bahraichi (Pg. 108)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.